تسلیم دوش اس میں سِتم گر کا کچھ نہیں
زخمی کا سب قصور ہے خنجر کا کچھ نہیں
ساحل سے آگے جیسے سمندر کا کچھ نہیں
دنیا کی رونقوں میں قلندر کا کچھ نہیں
میں نے بڑھا چڑھا کے بھی دیکھی ہے سب کی قدر
لیکن یہاں تمہارے برابر کا کچھ نہیں
دیکھا ضرور ایک نجومی نے میرا ہاتھ
لیکن بتایا میرے مقدر کا کچھ نہیں
نادان تھے سمجھ نہیں پائے تھے اتنی بات
سر پھوڑنے سے جائے گا پتھر کا کچھ نہیں
تسلیم دوش اس میں سِتم گر کا کچھ نہیں
(عدنان خالد)