یوں اُس کو لاجواب کِیا، اور چل پڑا
سائے کا انتخاب کِیا، اور چل پڑا
مِلتا نہیں تھا اُس کو بہانہ کہ چھوڑ دے
خود میں نے دستیاب کِیا، اور چل پڑا
دنیا میں آ کے میں نے کِیا کونسا کمال
جینے کا ارتکاب کِیا، اور چل پڑا
کچھ دیر پیشتر بڑی شفّاف تھی ندی
چھُو کر اِسے خراب کِیا،اور چل پڑا
اِس تیرگی میں مجھ سے قناعت پسند نے
جگنو کو ماہتاب کِیا، اور چل پڑا
یہ جاننے،یہ دشت سے نالاں ہے کِس لیے
خود کو سپردِ آب کِیا، اور چل پڑا
یوں اُس کو لاجواب کِیا، اور چل پڑا
(عدنان خالد)