سورج طلوع ہوگیا شب ڈھل نہیں رہی
یہ لگ رہا ہے جیسے گھڑی چلُ نہیں رہی
مت آئیے ادھر کہ ابھی منجمد ہے دل
اس غار میں بھی آگ کہیں جل نہیں رہی
اک عمر ہوگئی کہ محبت کی زد میں ہوں
یہ وہ بلا جو سر سےمرے ٹل نہیں رہی
مدت سے ہوں میں ایک گلی میں رکا ہوا
شاید کہ یہ زمین ابھی چل نہیں رہی
اس کو کسی خسارے کا مطلب نہیں پتا
یہ زندگی جو ہاتھ ابھی مل نہیں رہی
سورج طلوع ہوگیا شب ڈھل نہیں رہی
(قمر رضا شہزاد)