اور پھر اتنا تماشا تو میں کرلیتا ہوں

تیرے یہ دونوں جہاں جیب میں بھر لیتا ہوں

دیکھتا رہتا ہوں میں بہتے ہوئے دریا کو

اس کا جی چاہے تو پھر بات بھی کرلیتا ہوں

بے وفا کو ئی بھی ہو اس سے مجھے کیا مطلب

جب یہ الزام بھی میں اپنے ہی سر لیتا ہوں

جھوٹ بھی بولتا ہوں سچ بھی بتاتا ہوں اسے

آئینہ خانے سے میں دونوں ہنر لیتا ہوں

چاہنے والےکے جالگتا ہوں دل سے شہزاد

اتنا تو میں بھی محبت سے اثر لیتا ہوں

اور پھر اتنا تماشا تو میں کرلیتا ہوں

(قمر رضا شہزاد)