رہنی ہی نہیں خاک پہ جب ذات ہماری

دیکھے گا یہاں کون فتوحات ہماری

خالق سے کوئی بات بھی کہتے نہیں ہم لوگ

ڈھل جاتی ہے اشکوں میں مناجات ہماری

بہتے ہوئے پانی پہ بنادیتے ہیں الفاظ

ممکن ہے پہنچ جائے کہیں بات ہماری

ہم جیسے فقیروں کو کہاں اس کی خبر ہے

کس کس نے لگائی ہے یہاں گھات ہماری

آجائیں گے اک روز ترے کام اگرچہ

تنکے سے زیادہ نہیں اوقات ہماری

ہم لوگ اٹھائے ہوئے پھرتے ہیں محبت

آ جائیے لے جائیے سوغات ہماری

رہنی ہی نہیں خاک پہ جب ذات ہماری

(قمر رضا شہزاد)