ٹھہری ہوئی ساعت میں بہت روز سے ہم ہیں

اک ہجر کی حالت میں بہت روز سے ہم ہیں

لوٹ آتی ہے ہر راہگزر اپنی ہی جانب

بے سود مسافت میں بہت روز سے ہم ہیں

اب خود سے ہی کہہ لیتے ہیں جو ہوتو ہے کہنا

اک قحط سماعت میں بہت روز سے ہم ہیں

آئینہء ادراک میں چہرہ نہ کوئی عکس

اک عالم حیرت میں بہت روز سے ہم ہیں

اک بارجنوں اور یہ اک دل سی مصیبت

اس دہری مشقت میں بہت روز سے ہم ہیں

اب آئے کوئی مرحلہء عشق و جنوں بھی

آسانی و راحت میں بہت روز سے ہم ہیں

اک موج فنا سر سےگزرنے کو ہے اسلم

یہ سوچ کے عجلت میں بہت روز سے ہم ہیں

ٹھہری ہوئی ساعت میں بہت روز سے ہم ہیں

(اسلم محمود )