رنگِ زلفِ اُداسی بدن پر بکھیرے ہوئے جا بہ جا چل رہی ہے ہوا

جس طرح دیکھتی راہ ساجن کی, دلہن کا دیپک بُجھا چل رہی ہے ہوا

میں کِسی گُل بدن کو تصوّر کے ہاتھوں سے چھو تے ہوئے جل رہا ہوں

اِس قدر ذہن کو چوسنے کی مجھے مِل رہی ہے سزا چل رہی ہے ہوا

یہ خدا میرے سنگ تیری دُنیا نے کتنے ہی دھوکے کئے دم بہ دم پے بہ پے

آتش غم میں مُجھکو جلایا گیا اِس گما میں رکھا چل رہی ہے ہوا

اِس قدر مُجھکو دے کر کے کشتی بندھے ہاتھ گہرے سمندر میں چھوڑا گیا

میں وجود و عدم میں بھٹکتا رہا اِسکا کیا فائدہ چل رہی ہے ہوا

دُکھ کے بستر میں لپٹے ہوئے شب پرستی سے بیزار, بیمار ذہنوں کو یوں

دے رہی ہے صدا اضطرابِ قضا جل رہا ہے دیا چل رہی ہے ہوا

رنگِ زلفِ اُداسی بدن پر بکھیرے ہوئے

(صفر شرما )