لا مکاں کو کسی امکان میں لاتی ہوئی میں
روشنی کی طرح اک راہ بناتی ہوئی میں
اپنے اندر کی فضاؤں میں سماتی ہوئی میں
پر سمیٹے کسی پرواز کو جاتی ہوئی میں
دولتِ درد کو سینے سے لگاتی ہوئی میں
زخم کو سب کی نگاہوں سے چھپاتی ہوئی میں
لا مکاں کو کسی امکان میں لاتی ہوئی میں
(تسنیم عابدی )