کیسا ہے رمزِ آگہی ، ایک بھی در نہیں کھلا
چلتے رہے نہ کم ہوا، خود سے یہ خود کا فاصلہ
لفظ بہت تھے قیمتی وہ تھا مزاج آشنا
عشق میں ہم نے آنکھ سے کام زبان کا لیا
دشتِ سگاں میں منتظر اپنے غزال کی رہی
اس کو مگر خبر نہیں تکتی ہوں اب بھی راستہ
مجھ کو نہ سرسری پڑھو ، دیکھو سنبھال کر رکھو
میری یہ خاک دیکھنا بنتی ہے کیسے کیمیا
اس سے کہو کہ چارہ گر تیرا مریض جاں بہ لب
اس سے کہو کہ دردہی ہونے لگا ہے اب دوا
کیسا ہے رمزِ آگہی ، ایک بھی در نہیں کھلا
(تسنیم عابدی )