خواب اور خواہشات بہم ہو نہیں رہے
دنیا ! ہم ایک دُوجے میں ضم ہو نہیں رہے
ہونا تو چاہتے ہیں سر ِ بزم ِ ہست و بُود
اے مالک ِ وجود و عدم ! ہو نہیں رہے
اپنا مکالمہ بھی کسی غیر سے نہیں
اور خود سے ہم کلام بھی ہم ہو نہیں رہے
سینہ بہ سینہ ہوتے رہیں گے بیان ہم
وہ سانحات ہیں کہ رقم ہو نہیں رہے
آنکھیں ہماری دیکھیے روشن ازل سے ہیں
شانے ہمارے دیکھیے خم ہو نہیں رہے
اک آگ میں ہیں آگ بھی یعنی فنا کی آگ
اِس آگ میں بھی سوختہ دم ہو نہیں رہے
ہم کون نقش ہیں ؟ یہ ہوا پوچھتی پھرے
ہم کس دیے کی لَو ہیں جو کم ہو نہیں رہے ؟
خواب اور خواہشات بہم ہو نہیں رہے
(شہباز خواجہ)