خود اپنے خواب کی وحشت سے کچھ ڈرا ہوا تھا

ہوا میں آگ تھی روشن ——— دیا بجھا ہوا تھا

میں چل رہا تھا کسی یاد کے بہاؤ میں

کہیں ملا تھا کسی سے کہیں جدا ہوا تھا

کئی نگاہیں مجھے چلمنوں سے جھانکتی تھیں

کسی کسی نے تو دل پر بھی لکھ لیا ہوا تھا

جو مجھ سے پہلے یہاں تھے وہ اب کہیں نہیں تھے

سو شہر ِ خواب کا —— میں حوصلہ بنا ہوا تھا

الجھ رہی تھیں ہوائیں اُس ایک پھُول کے ساتھ !!

طلب سبھی کو تھی لیکن — مجھے عطا ہوا تھا

یہ اشک ———— اور کسی شام کی نشانی ہیں

یہ زخم ———— اور ہی رُت میں ہرا بھرا ہوا تھا

میں کربلا سے سلامت نکل گیا ہوں تو اب

یہ کوفہ والے مجھے پوچھتے ہیں ! “کیا ہُوا تھا”؟

خود اپنے خواب کی وحشت سے کچھ ڈرا ہوا تھا

(شہباز خواجہ)