جو تو نہیں تو یہ دل بھی بے ماجرا رہے گا
بچھڑ کے تجھ سے اسیر دشت بلا رہے گا
وہ دن بھی آئے گا جب نہ کچھ بھی بچا رہے گا
رہے گا دست دعا نہ حرف دعا رہے گا
ہواؤں کے بعد سنگ باری کا مرحلہ ہے
چراغ ہی بچ سکا نہ اب آئنہ رہے گا
رہے گا باقی رفاقتوں کا نہ کوئی منظر
خیال میں ایک لمحہء گمشدہ رہے گا
سرشت تبدیل ہو سکے گی کہاں کسی کی
جو بے وفا ہے وہ عمر بھر بے وفا رہے گا
جو تو نہیں تو یہ دل بھی بے ماجرا رہے گا
(اسلم محمود )