ہم اس طرح سپرد عدم کر دئے گئے
ریگ رواں پہ نقش قدم کر دئے گئے
جب احتجاج میں وہ علم کر دئے گئے
پھر یہ ہوا کہ ہاتھ قلم کر دئے گئے
کرتے ہیں لوگ دیکھئے اب کس کو منتخب
یکجا یہاں خدا و صنم کر دئے گٰے
اپنی قطار ختم ہی ہونے کو تھی کہ ہم
اک دوسری قطارمیں ضم کر دئے گئے
یوں ہی کسی قطار میں ہم تھے نہیں کبھی
ناقابل شمار بھی ہم کر دئے گئے
غم لے کے سارے ایک غم عشق دے دیا
کہنے لگے کہ جائیے کم کر دئے گئے
ہم اس طرح سپرد عدم کر دئے گئے
(اسلم محمود )