ہمارے اطراف زرد پتے بکھر گئے ہیں

طرب کے نغمے سنا کے موسم گزر گئے ہیں

بجھا گئے ہیں خود اپنے ہاتھوں چراغ سارے

مگر ہواؤں کے سر پہ الزام دھر گئے ہیں

جواب کیسا کہ خود انہی کی خبر نہ آئی

ہمارا پیغام لے کے جو نامہ بر گئے ہیں

نہ جانے کس معرکے میں الجھے تھے لوگ جس میں

نہ تیغ چمکی نہ خون ٹپکا نہ سر گئے ہیں

نصیب میں جن کے دھوپ کا ہی سفر لکھا تھا

گھنے درختوں کی چھاؤں دیکھی تو ڈر گئے ہیں

جو اعلی اخلاق و اعلی ظرفی کا تھے نمونہ

کہانیوں کے وہ سارے کردار مر گئے ہیں

ہمارے اطراف زرد پتے بکھر گئے ہیں

(اسلم محمود )