فضائے دل کو معطر بنائے رکھتا تھا

ترا فراق بھی ہم کو وصال جیسا تھا

میں آنکھ بھر کے اسے دیکھنے سے ڈرتی تھی

کہ اس بدن میں کئی سورجوں کا ڈیرا تھا

وہیں وہیں پہ اسے مات ہونے والی تھی

جہاں جہاں وہ مری آرزو سے کھیلا تھا

کہ یوں تو ہم تھے فقط چاک پر دھری مٹی

مگر تھا کچھ ، جو پس خاک دل چمکتا تھا

وہ ہونٹ تھے کہ چھلکتی تھیں شہد کی قاشیں

وہ چشم تھی یا کسی میکدے کا رستہ تھا

وہ چشم تھی کہ تراشیدہ روشنی کا ہنر

وہ ہونٹ تھے کہ جواہر کا کارخانہ تھا

وہ چشم تھی یا کسی اور کائنات کا رس

وہ لب تھے یا کوئی اسم قدیم پڑھتا تھا

یہ مہرو مہ تو بہت بعد درمیاں آئے

کہ تیرا میرا تعلق تو ابتدا کا تھا

وہ دشت ذات کا گہرا جمیل سناٹا

مرے سکوت کی رعنائیوں نے توڑا تھا

جئیں گے اب مرے بچے اداسیاں میری

کہ میں نے ان کو بڑی وحشتوں میں پالا تھا

فضائے دل کو معطر بنائے رکھتا تھا

(صائمہ زیدی )