وہ عجب خواب کی ساعت تھی

عجب رنگ کی رات

چاند نے جب سخن آغاز کِیا تھا ہم سے

تیری مانوس سی خوش بُو سے ہوا تھی لب ریز

لمسِ اوّل کی سنہری تحریر

تیرے اور میرے سبک ماتھے پر

جب بشارت کی طرح لکّھی گئی

اک اسی شب کے لیے

پاٹ کر وقت کے دریا کو

بڑی دور سے آئی تھی میں

آیتِ ہجر ہوئی تھی منسوخ

اک اسی شب کے لیے

ہم نے اک عمر کسی دور کے سیّارے پر

سُورۂ عشق تلاوت کی تھی

تو بھی آیا تھا پہَـن کر نئی پوشاکِ بدن

دل کی زیبائی پہ کچھ میں نے بھی محنت کی تھی

باغ میں ہنستے ہوئے زرد چراغ

شاخ پر کھلتے ہوئے سرخ گلاب

چشم حیراں میں دمکتے ہوئے خواب

سب پذیرائی کو بے تاب ہوئے جاتے تھے

راستے قرب کی حدّت سے گُھلے جاتے تھے

جسم پر وصل ابد تاب کی شیریں دستک

روح کا نقرئی دَر کھولتی تھی

(تیری آواز بہُت پاس آ کر

میرا سامان سفر کھولتی تھی)

جُنبشِ چشم پہ تیری وہ دھڑکنا دل کا

ایک موہوم اشارے پہ سنبھلنا دل کا

یاد کی جھیل میں ہر آن اترتی ہوئی رات

دل سے گذری ہی نہیں پھر وہ پگھلتی ہوئی رات

ہونٹ جب ناو بنے اور کنارہ سا بدن

شب تِری یاد میں لرزاں تھا ستارہ سا بدن

نواح ِجاں میں ایک شب

(صائمہ زیدی )