یہ اشک آنکھ سے جب بھی اُبل کے آئے ہیں

ہم اپنے خواب سے باہر نکل کے آئے ہیں

چراغ توڑ کے خود اپنی روشنی کا غرور

ہوا کے ساتھ کہیں پر بہل کے آئے ہیں

نہ جانے رات نے کیا اسم مجھ پہ پھونکا ہے

ہزاروں چاند مرے پاس چل کے آئے ہیں

تھکن اُتار رہے ہیں ہزار صدیوں کی

ہم اپنے جسم سے باہر ٹہل کے آئے ہیں

میں اپنی عمر کا تاوان بھر کے پہنچا ہوں

تو فکرِ تازہ کے رستے نکل کے آئے ہیں

میں اِن کے زہر کا تریاق جانتا ہوں فگار

یہ سانپ میری طرف جو اُچھل کے آئے ہیں

یہ اشک آنکھ سے جب بھی اُبل کے آئے ہیں

(سلیم فگار)