شکوہ نہیں کہ کیا ملا یا کیا نہیں ملا

کچھ بھی مگر بقدر تمنا نہیں ملا

ڈوبے ہوئے تو پار بھی کب کے اتر گئے

کشتی میں جو تھے انکو کنارہ نہیں ملا

خود کو سمیٹنے میں کٹی ساری زندگی

تم کو تو کیا میں خود کو بھی یکجا نہیں ملا

مانا کہ آئینہ بھی میسر نہیں ہمیں

انکی تو کچھ کہو جنہیں چہرہ نہیں ملا

بے چہرگی کے شہر میں تھے آئینہ فروش

قیمت بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ملا

سوئے ہوئے تھے جسم کی قبروں میں سب کے سب

نبضیں ٹٹول لیں کوئی زندہ نہیں ملا

شکوہ نہیں کہ کیا ملا یا کیا نہیں ملا

(اسلم محمود )