ابھی کچھ دیر پہلے
قصرِ ابیض سے
ہوا ہے حکم یہ جاری
سفید و مست ہاتھی نے
کیا چنگھاڑ کر اعلانِ خاص و عام
دنیا کی سبھی قومیں
سبھی افراد اب اس کی پناہ میں ہیں
سبھی اس کی نگاہ میں ہیں
غضب سے شاہِ والا کے
جو بچنا چاہتے ہو تو
سب ہی ہتھیار مہلک اپنے اپنے جمع کروا دو
اسی میں عافیت سب کی
اسی میں خیریت سب کی
شہ والا۔۔۔!!
بجا یہ حکمِ سرکاری
خوشا عالم کی سرداری
مگر
اتنی اجازت ہو
اماں گر جان کی پائیں
تو ہم یہ پوچھنا چاہیں
کہ وہ جو زہر کا انبار ہے شاہی خزانے میں
وہ کیا تریاق کا حامل ہوا ہے اس زمانے میں
حضورِ محترم !
جو اسلحے کا ڈھیر رکھا ہے
بھلا انسان کے کس کام آتا ہے
یہ مانا آپ ٹھیکیدار ٹھہرے امن عالم کے
مباح ہے ایشیا کا خون بھی سچ ہے
شہ والا!!
ہمیں اپنے رویے پہ ندامت ہے تو اتنی ہے
حضور!
ہم آج اپنا سر اٹھا کر بات کرنا چاہتے ہیں
لرزتے کانپتے ہاتھوں سے آئینہ دکھاتے ہیں
جو چاہیں تو
ہمیں اس جرم کی پاداش میں سولی پہ لٹکائیں
ہماری نسلِ نو کے
ذہن بھی نیلام کر ڈالیں
مگر
بولی لگانے والوں کو یہ یاد رکھنا ہے
غرور و نخوت و جاہ و حشم
اک ریت کی دیوار ہوتا ہے
ہوا کے تیز اک جھونکے سے
یہ مسمار ہوتا ہے
شہ والا۔۔!
کہانی وہ پڑھی ہوگی
نہیں تو پھر سنی ہوگی
کہ ہاتھی والوں پہ ننھے پرندے
حملہ آور تھے
اور جب کنکر برستے تھے
نہ ہی لڑنے کا یارا تھا
نہ ہی کوئی سہارا تھا
بہت انجام عبرتناک تھا ان کا
ہمیں بس اتنا کہنا ہے
کہیں یہ قصرِ ابیض
فکرِ اسود سے نہ جل جائے
قصرِ ابیض فکرِ اسود
(تسنیم عابدی )