مجھے لگا تھا فقط تُو اِدھر نہیں آیا

بہت دنوں سے خدا بھی نظر نہیں آیا

ہم ایک دوجے کے سائے میں چلتے آئے ہیں

ہماری راہ میں کوئی شجر نہیں آیا

قدم قدم پہ ٹھہر کر میں سب سے پوچھتا ہوں

مری تلاش میں کوئی اِدھر نہیں آیا؟

میں جب بھی دیکھا گیا ہوں سفر میں دیکھا گیا

مرا پڑاؤ کسی کو نظر نہیں آیا

اسی خبر پہ کہانی کا اختتام ہوا

بہت دنوں سے عزیر اپنے گھر نہیں آیا

مجھے لگا تھا فقط تُو اِدھر نہیں آیا

(عزیر یوسف)