کس سے سن کر آئے ہیں اور جا کر کسے سنانی ہے

ات کی باتیں اُت کرنے میں یوں ہی عمر گوانی ہے

دیکھ کے اُس دوشیزہ کی ایڑی کو گھبراتا ہے دل

پائل کی آواز میں اُلجھی کتنی رنگ فشانی ہے

دل ہی دل کے رستے چل کر کچھ نہ ہوئے مایوس ہوئے

دل کی راہگزر میں کیول غم ہے اور غم خوانی ہے

چار ادھر سے چار اُدھر سے کترن کاٹ کے لے آئے

سُرخی میں آنے کو سبنے تازی خبر سنانی ہے

بے پرواہی اوڑھنے والے اتنی بھی پرواہ نہ کر

اندیکھا کرنا سبکو، سوچی سمجھی بے دھیانی ہے

کس سے سن کر آئے ہیں اور جا کر کسے سنانی ہے

(صفر شرما )