فلک پر چاند سورج سب ستارے بن رہے تھے
زمیں کہسار بحر و بر کنارے بن رہے تھے
میں اپنی خوش گمانی کے خزانوں سے بھرا تھا
کہیں پر جب خسارے پر خسارے بن رہے تھے
ابھی پہچان کے سب مرحلوں سے ہم ادھر تھے
مکمل کون تھا ہم لوگ سارے بن رہے تھے
میں جب نکلا تھا آنکھوں میں شکستہ خواب بھر کر
قیامت ٹوٹ پڑنے کے اشارے بن رہے تھے
کہیں پر نقش رکھے جارہے تھے چاک پر جب
وہیں باہم شناسا دل ہمارے بن رہے تھے
میں جب تصویر کرنا چاہتا تھا تیری صورت
ستارے کہکشائیں استعارے بن رہے تھے
ہمیں تازہ ہوا کے فائدے سمجھا رہا ہے
ابھی تو ہاتھ تیرے تیز آرے بن رہے تھے
مری آواز غصہ حرف و نفرت کچھ نہیں تھا
کہیں ردِ عمل میں سب ادارے بن رہے تھے
فلک پر چاند سورج سب ستارے بن رہے تھے
(سلیم فگار)