دکھائی دے تو بتاؤں کہاں سے باہر ہے
وہ آسمان جو اس آسماں سے باہر ہے
میں ضم تو ہو ہی گیا ہوں زمین والوں میں
مرا غبار ابھی کارواں سے باہر ہے
ترے علاوہ مجھے کون زخم دینے لگا
نیا نشان پرانے نشاں سے باہر ہے
اُسی کو چکھنے چکھانے میں ہم تباہ ہوئے
وہ ذائقہ جو ہماری زباں سے باہر ہے
کوئی تو ہوگا جو بننے سے رہ گیا ہوگا
کوئی تو ہوگا جو کون و مکاں سے باہر ہے
اس اک جہان میں کتنا ہی رہ لیے ہم تم
وہ اِک جہان جو دونوں جہاں سے باہر ہے
دکھائی دے تو بتاؤں کہاں سے باہر ہے
(عزیر یوسف)