بظاہر تو یہ ذرہ کچھ نہیں ہے

مقابل اس کے صحرا کچھ نہیں ہے

یہی سمجھا کہ سمجھا کچھ نہیں ہے

یہی جانا کہ جانا کچھ نہیں ہے

اگر سوچو تو دنیا کچھ نہیں ہے

اگر سمجھو تو اپنا کچھ نہیں ہے

جو مجھ میں چل رہا ہے اس کے آگے

یہ دنیا کا تماشا کچھ نہیں ہے

سرابوں سے بجھے گی پیاس اپنی

وہ شدت ہے کہ دریا کچھ نہیں ہے

ترا غم خود سے منہا کر کے دیکھا

پھر اپنے پاس بچتا کچھ نہیں ہے

چلے جائیں گے اطمینان سے ہم

ہمارے پاس اپنا کچھ نہیں ہے

یہ سب کچھ منہ پہ کہہ دیتا ہے اسلم

کہ آئینہ چھپاتا کچھ نہیں ہے

بظاہر تو یہ ذرہ کچھ نہیں ہے

(اسلم محمود )