اب ُظلم کو َسہنے سے میں انکار نہ کر دوں

آخر کو جو کرنا ہے وہ اِس بار نہ کر دوں

ِاس بار میں پہلے ہی سے قاتل کو نہ جا لوں

اور مار کے شب خوں اُسے بیکار نہ کر دوں

اور ُچھپ کے چلا جاؤں وہاں بچتا بچاتا

سوۓ ہوۓ لوگوں کو خبردار نہ کر دوں

اور تیر کے جاؤں ُاسی منجدھار کے اندر

جو ڈوبتے جاتے ہیں اُنہیں پار نہ کر دوں

اور چیر کے جاؤں صفِ ُدشمن کو ُالٹ کر

اس جسم کو میں بر سرِ پیکار نہ کر دوں

باقی جو بچے ہیں اُنہیں لے جاؤں کہیں پر

اور کر کے مُسّلح انہیں تیار نہ کر دوں

پھولوں کی جگہ منہ سے جھڑے زہر تو اچھا

اور رکھ کے قلم ہاتھ میں تلوار نہ کر دوں

اس راہ کی دیوار میں اک دَر نہ بنا لوں

اور دَر جو ُکھلا ہے اُسے دیوار نہ کر دوں

جب دوست بھی اک لفظ مرے حق میں نہ بولے

پھر یہ صفِ بزدل صفِ اغیار نہ کردوں

اور آئینہ رکھ دوں میں منافق کے مقابل

اور سادہ و معصوم کو ہُشیار نہ کر دوں

ٹھوکر پہ نہ رکھ لوں ترے درباری و دربار

اور نوکِ سناں پر تری دستار نہ کر دوں

ہم سب کا لہو جس کے چراغوں میں پڑا ہے

اُس قَصر کے رنگیں در و دیوار نہ کر دوں

طاری ہے عجب خوف یہاں ُظلمتِ شب کا

پیدا میں نئی صُبح کے آثار نہ کر دوں

اور چھیڑ کے اک نغمہء رندی و انالحق

سوۓ ہوۓ لوگوں کو میں بیدار نہ کر دوں

اور شہر کو پھولوں سے بھروں پھینک کے بندوق

گلیوں میں پرندوں کی میں چہکار نہ کر دوں

دِکھلاکے قَرینہ میں حسین ابنِ علی کا

سب ظالم و مظلوُم عزا دار نہ کر دوں

اب ُظلم کو َسہنے سے میں انکار نہ کر دوں

(احمد مبارک)