چشمِ حیراں نے مقدر کو سنورتے دیکھا
اک فسانے کو حقیقت میں بدلتے دیکھا وہ تخیل مری نظموں نے تراشا جس کو
مدتوں چشمِ تصور نے سنوارا جس کو
ہاں وہی جانِ غزل اور وہی وجہِ سخن
جس کے ہونے سے اتر آیا مرے شعر میں فن
مجھ کو لگتا تھا نہیں جس کا کہیں کوئی وجود
وہ فقط میرے تخیل کا گماں ہے بے سود
وہ جو آتا تھا مرے خواب میں مبہم سایہ
دیکھیے خوبئ قسمت کہ نظر وہ آیا
جانے کس بات کی تھی لوگوں میں افرا تفری)
اور ہر اک کو پڑی تھی فقط اپنی اپنی
ایسا محشر کا سماں تھا کہ خدا ہی معلوم
نظر آتا تھا ہر اک سمت ہی خلقت کا ہجوم
بد حواسی کا نہ جانے تھا وہ کیسا لمحہ
میں نے مانوس سی آواز پہ مڑ کر دیکھا
اس سے بڑھ کر کیا اب اس کا بیاں ہوگا بھلا
(اک حسیں خواب کی صورت وہ مرے سامنے تھا
ہو نہیں سکتا رقم دل کا جو اس وقت تھا حال
صرف سن لیجیے موسم کا ذرا سا احوال
شامِ سرما کی ہوا چہروں پہ ملتی تھی گُلال
آسماں پر تھا مہینے کا وہی تازہ ہلال
جس کے پہلو میں چمکتا تھا وہ روشن تارا
ہو بہو جو کسی چہرے کی طرح ہے پیارا
یک بیک اٹھنے لگا جسم کی رگ رگ میں ابال
موسمِ سرد ہوا آتشِ دوزخ کی مثال
ہوش جاتا رہا چھانے لگا آنکھوں میں اندھیر
بس دعا کی کہ مرے رب مرے جذبات کی خیر
گر خطا ہے تو خدا بخش دے میرا یہ قصور)
(یاد آیا بڑی شدت سے مجھے جلوۂ طور
دل کو قابو میں کیا اور سنبھالا خود کو
جیسے تیسے اس اذیت سے نکالا خود کو
پھر ٹِکا کر کسی دیوار سے یہ لرزاں وجود
سوچتی تھی کہ مٹا دوں سبھی مابین حدود
جی میں آتا تھا کہ بس بڑھ کے پکڑ لوں دامن
اس کے سینے سے لپٹ کر کروں ہلکا یہ من
اس کو بتلاؤں شبِ ہجر جو گزری مجھ پر
اس کو دکھلاؤں میں اپنے یہ سبھی داغِ جگر
ہاتھ میں ہاتھ لیے اس سے ہر اک بات کہوں
بھر کے ہاتھوں میں وہ چہرہ میں یہ فریاد کروں
روحِ من مجھ پہ کر اب آخری احسان بس ایک
اے مرے خواب کی تعبیر مری سمت بھی دیکھ